گندم، چاول، مکئی، سرسوں، آم، کینو اور تل کے بعد اب کسان کپاس کی فی ایکڑ پیداوار سے اچھی آمدنی کے حصول سے بھی محروم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ کسان تنظیموں کی جانب سے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو زرعی شعبے کی بحالی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات بروئے کار لانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 30ستمبر 2024 تک ملک بھر کی جننگ فیکٹریوں میں 60فیصد کی نمایاں کمی سے صرف 20لاکھ 40ہزار روئی کی گانٹھوں کے مساوی پھٹی کی ترسیل ہوئی ہے۔رپورٹ کے مطابق پنجاب کی جننگ فیکٹریوں میں زیر تبصرہ مدت تک 7لاکھ 27ہزار اور سندھ میں 13لاکھ 13ہزار گانٹھوں کے مساوی پھٹی پہنچی ہے جو پچھلے سال کے اسی مدت کی نسبت بالترتیب 65فیصد اور 56فیصد کم ہے۔اعداد و شمار کے مطابق 30ستمبر تک پنجاب کے چار علاقوں سرگودھا، پاک پتن، اوکاڑہ اور قصور میں کپاس کی پیداوار صفر رہی ہے جبکہ چند سال قبل تک ملک میں سب سے زیادہ کپاس پیدا کرنے والے علاقے ضلع رحیم یار خان میں 95فیصد کی کمی سے صرف 12ہزار گانٹھوں کی مساوی پھٹی جننگ فیکٹریوں میں پہنچی ہے۔رپورٹ کے مطابق پنجاب میں اس وقت پچھلے سال کی 385جننگ فیکٹریوں کے مقابلے میں 171 اور سندھ میں 278 کے مقابلے میں 221جننگ فیکٹریاں فعال ہیں۔ زیر تبصرہ مدت کے دوران ٹیکسٹائل ملوں نے جننگ فیکٹریوں سے 18لاکھ 49ہزار روئی کی گانٹھوں کی خریداری کی ہے جبکہ پچھلے سال کے اسی مدت کے 2لاکھ 48ہزار کے مقابلے میں رواں سال اب تک صرف 400روئی کی گانٹھوں کو برآمد کیا جا سکا ہے۔چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے ایکسپریس کو بتایا کہ جاری حالات کے تناظر میں کاٹن ایئر 2024-25 کے دوران کپاس کی مجموعی قومی پیداوار 50لاکھ گانٹھ سے بھی کم رہنے کے خدشات ہیں جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل ملوں کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے 2ارب سے 3ارب ڈالر مالیت کی روئی درآمد کرنی پڑے گی۔انہوں نے بتایا کہ کپاس و دیگر فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار بہتر بنانے کے لیے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ کسانوں کی بقا کے لیے کسان پیکج دینے کی بجائے زرعی مداخل کو سیلز ٹیکس فری بنائے، فصلوں کی سپورٹ پرائسز مقرر کرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی طرح ان کی خریداری کو بھی یقینی بنانے کے اقدامات بروئے کار لائے چیئرمین کاٹن جنرز فورم نے کہا کہ جننگ و ٹیکسٹائل انڈسٹری پر ٹیکسوں میں واضح کمی کی جائے تاکہ ان صنعتوں میں غیر دستاویزی کاروبار مکمل طور پر ختم ہونے سے کپاس کے درست پیداواری اعداد و شمار سامنے آسکیں اور ریونیو کی وصولیوں کے حجم میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو سکے۔