کملا ہیرس کا وکیل سے صدارتی امیدوار بننے تک کا سفر
امریکا کی ریاست کیلی فورنیا میں جس شام نائب صدارتی امیدوار کملا ہیرس کی فنڈ ریزنگ میں مجھے شرکت کا موقع ملا، دنیا میں شاید ہی کسی کے ذہن میں ہو کہ انڈین اور جمیکن امریکن پس منظر سے تعلق رکھنے والی یہ خاتون صدارتی الیکشن لڑے گی۔
یہ فنڈریزنگ ڈنر جو بائیڈن اورڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان صدارتی مباحثے سے ایک روز پہلے ہوا تھا۔ پاکستانی امریکن ڈیموکریٹ ڈاکٹر آصف محمود کے بریڈبری مینشن میں منعقد اس تقریب میں یہ ضرور ہے کہ موجود زیادہ ترافراد فکر مند تھے کہ شاید بائیڈن اچھا پرفارم نہ کرسکیں۔اس کی دو وجوہات تھیں۔ پہلی یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ جملے کسنے میں ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے مباحثے میں کیا بھی یہی ایک موقع پر بولے کہ بائیڈن جو کہہ رہیہیں، شاید انہیں خود بھی معلوم نہیں۔ اس طرح وہ بائیڈن کا تاثر بھلکڑ اور حواس باختہ شخص کے طور پر ابھارنے میں کامیاب رہے۔ دوسرا یہ کہ چاربرس اقتدار سے باہر رہ کر ڈونلڈ ٹرمپ اب تجربہ کار اپوزیشن لیڈربھی بن چکے ہیں اس لیے انہیں مباحثہ ہرانا مشکل ہوگا۔ہوا بھی کچھ ایسا ہی، ایونٹ ختم ہونے کے چند ہی گھنٹے بعد کراچی کیلئے پرواز کرتے ہوئے جہاز میں جوں جوں میں مباحثہ کی اپ ڈیٹ دیکھتا رہا، فنڈ ریزنگ ڈنر میں موجود شخصیات کے خدشات درست ہوتے چلے گئے۔ طیارہ لینڈ ہونے سے پہلے ہی جوبائیڈن کیخلاف فضا بنائی جاچکی تھی۔ اب امکان تھا کہ کملا ہیرس ممکنہ صدارتی امیدوار ہوں گی۔سوال یہ تھا کہ آیا غیرسفید فام کملا ہیرس اپنے اس ری پبلکن حریف کو ہرا پائیں گی جس پر امریکا میں نسل پرستی بڑھانے کاالزام ہے؟ اس طبقے کا خیال تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ سفید فام خاتون اول اور سابق وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن کو سن دوہزار سولہ میں ہراچکے ہیں تو کملا ہیرس تو ان کے لیے ترنوالہ ثابت ہوں گی۔امریکا کے سابق صدر بارک اوباما تو سرعام یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ ابھی تک انہوں نے کملا ہیرس کی انتخابی مہم میں وہ جان ہی نہیں دیکھی جو بطور سیاہ فام صدارتی امیدوار خود انکے دور میں تھی۔ اوباما کے نزدیک بہت سے ڈیموکریٹس کا خیال ہے کہ مرد طاقت کی علامت ہوتا ہے اس لیے یا تو کملا کو ووٹ ہی نہ دیں یا ڈونلڈ ٹرمپ کو کامیاب بنایا جائے۔