کسی بھی ادارے یا فرد کی کارکردگی کا پیمانہ اس کے دستیاب وسائل کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔ جہاں تک بات پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کی ہے تو جس ادارے کے تنخواہوں ، پیشنز اور ریسرچ پروگرامز کے اخراجات کاٹن سیس سے ادا ہوتے ہوں اور حکومتی خزانے سے ایک روپیہ بھی نہ ملتا ہو ۔۔۔۔۔ اور ٹیکسٹائل مل مالکان کے رحم و کرم پر PCCC کو چھوڑا گیا ہو اور جس پر ٹیکسٹائل انڈسٹری نے 2016 سے اب تک یعنی 8 سال مسلسل عدالتی کارروائیوں میں الجھا کر رکھا اور 65 کیسز کئے ہوں (جس میں سے 63 کیسز PCCC جیت چکا ہے) جس کے ملازمین گزشتہ 28 ماہ سے تنخواہوں اور پینشنز سے محروم ہوں ۔۔۔۔ پھر ان سے PCCC کی کارکردگی کا پوچھنا انتہائی افسوناک امر ہے۔۔۔ بدترین مالی مسائل کے PCCC کے ادارے CCRI ملتان کی 2023 کے قومی ٹرائل میں کپاس کی قسم Cyto 547 کا اول پوزیشن حاصل کرنا کسی معجزے سے کم نہیں اور CCRI سکرنڈ – سندھ کی 2024 میں کپاس کی 3 اقسام کی سندھ سیڈ کونسل کے اجلاس میں منظوری ایک اعزاز کی بات ہے۔پی سی سی سی کے علاہ جو ملک بھر میں صوبائی ادارے اور نجی ادارے ، زرعی یونیورسٹیاں اور NGO’s جنہیں مالی وسائل کی کوئی کمی بھی نہیں وہ سب مل کر بھی 1 کروڑ گانٹھ پیدا نہیں کرسکے۔۔۔۔۔ کیا ملک میں کپاس کی پیداوار میں کمی کا جواب PCCC دے گا؟ کیا تمام اداروں کا بوجھ PCCC نے اٹھانا ہے؟ایپٹما سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرے، ECC کے فیصلوں کو ماننے سے انکاری ہو، کاٹن سیس ایکٹ کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرے، اپنے ہی اپٹما چیئرمین کے فیصلے کو ماننے سے انکاری ہو ۔۔۔۔ APTMA کا احتساب پھر کون کرے گا۔۔پی سی سی سی کے ہاتھ پاں باندھ کر اسے مفلوج کرکے اور اس پر ملکی کپاس کی پیداوار کے الزامات کی چارج شیٹ عائد کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ایپٹما APTMA کا یہ کہنا کہ انڈیا ہم سے کپاس کی پیداوار میں آگے نکل گیا مگر یہ نہیں بتاتے کہ انڈیا ، بنگلادیش اور ویتنام پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری سے آگے کیوں نکل گئے ہیں؟ یہ نہیں بتاتے کہ انڈیا میں کپاس کے ریسرچ اداروں کو انڈین ٹیکسٹائل انڈسٹری کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔۔۔ کاٹن سیس سے بچنے کے لیے PCCC کو تباہی کے کنارے تو لگا دیا گیا لیکن کیا پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری نے کپاس کے کاشتکاروں کے لیے کبھی کچھ کیا بھی ہے ؟ کیا کسی نے سوال کیا کہ کپاس کی امدادی قیمت کا اعلان کیوں نہیں کیا جاتا ان سب باتوں کا جواب کون دے گا ؟؟