پی سی جی اے کے اعدادوشمار: کپاس کا بحران اور ڈاکٹر جیسومل کا امتحان
تحریر ؛ ساجد محمود
سربراہ شعبہ ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ ملتان پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعدادوشمار ایک تشویشناک تصویر پیش کرتے ہیں اور ملکی کپاس کی صنعت میں گہرے بحران کی نشاندہی کرتے ہیں۔ پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کی جانب سے آج جاری کردہ کپاس کے اعدادوشمار کے مطابق 15 اکتوبر 2024 تک کل کپاس کی آمد 3،101،743گانٹھیں ہیں جبکہ گزشتہ سال 2023 میں آج کی تاریخ میں کپاس کی آمد 5,996086 گانٹھیں تھیں۔ یعنی کے گزشتہ برس کے مقابلے میں امسال 48.26% کپاس کی گانٹھیں کم ہوئی ہیں۔ اگر پنجاب کی بات کی جائے تو امسال ابتک 11لاکھ 85 ہزار 647 گانٹھیں پیدا ہوئیں جبکہ گزشتہ سال آج کی تاریخ میں 25 لاکھ 43 ہزار 100 گانٹھیں حاصل ہوئیں یعنی گزشتہ برس کے مقابلے میں پنجاب میں 53.38% کم پیداوار ہوئی۔ جبکہ سندھ میں امسال ابتک 19 لاکھ 16 ہزار 96 گانٹھیں پیدا ہوئیں جبکہ گزشتہ سال 34 لاکھ 52 ہزار 986 گانٹھیں پیدا ہوئیں یعنی گزشتہ برس کے مقابلے میں سندھ میں 44.52% کم پیداوار حاصل ہوئی۔ اور بلوچستان میں امسال ابتک 94 ہزار 850 گانٹھیں پیدا ہوئیں ہیں۔یہ رپورٹ واضح کرتی ہے کہ کپاس کی پیداوار میں مسلسل کمی ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے، جس کے ملکی معیشت اور زرعی شعبے پر شدید منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب پاکستان میں جاری کپاس کے بحران کے تناظر میں، پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین، ڈاکٹر جیسومل لیمانی، نے آئندہ برس (2025 )کپاس کی بحالی اور فروغ کے لیے فوری اور جامع اقدامات کا آغاز ابھی سے کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی جانب سے مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملاقاتیں اور مشاورت شروع کر دی گئی ہے ۔ تاہم، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ صورتحال میں کپاس دوبارہ اپنے عروج کو پہنچ سکے گی؟ کپاس کی کاشت آج بھی دیگر مسابقتی فصلوں جیسے گنا، مکئی، چاول اور تل کے مقابلے میں کم منافع بخش ہے۔ نہ تو کاشتکاروں کے لیے کوئی سپورٹ پرائس مقرر ہے، نہ زرعی مداخل پر سبسڈی دستیاب ہے اور نہ ہی مارکیٹ کا کوئی منظم طریقہ کار موجود ہے۔ مڈل مین اور آڑھتی کسانوں کا استحصال کر رہے ہیں، جس سے ان کا مالی نقصان ہو رہا ہے۔مزید برآں، کپاس کی فصل کو موسمیاتی تبدیلیوں، شدید گرمی، ہیٹ ویوز، سیلابی بارشوں اور سفید مکھی، گلابی سنڈی اور کاٹن لیف کرل وائرس جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے وفاقی سطح پر نہ کوئی تحقیقاتی فنڈز مختص کیے گئے ہیں اور نہ ہی نجی شعبہ سے کوئی مدد میسر ہے۔ یہ تمام عوامل کپاس کی پیداوار اور زیرِ کاشت رقبہ میں مسلسل کمی کا سبب بن رہے ہیں۔اس پس منظر میں، ڈاکٹر جیسومل کی کاوشیں اور جذبہ یقینی طور پر قابلِ تعریف ہیں، لیکن مذکورہ چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ ان مشکلات پر قابو پانے میں کتنے کامیاب ہوں گے۔ دعا ہے کہ ان کی کوششیں کامیاب ہوں اور پاکستان کی کپاس کی صنعت ایک بار پھر مستحکم ہو۔